Tuesday, May 20, 2025

رنگ برنگے پھول


رنگ برنگے پھول 

نباء کی خاص کہانی


ایک خوبصورت صبح نباء اپنی امی کے ساتھ باغ میں چہل قدمی کے لیے نکلی۔


ہوا نرم تھی، پرندے چہچہا رہے تھے، اور ہر طرف پھولوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔


نباء نے آنکھیں کھول کر اِدھر اُدھر دیکھا۔
امی! دیکھیں نا! یہ لال گلاب، پیلے سورج مکھی، نیلے پھول، اور سفید موتیا کتنے پیارے لگ رہے ہیں۔


امی نے مسکرا کر کہا
ہاں بیٹا، یہ سب پھول اللہ نے بنائے ہیں۔
ہر رنگ، ہر خوشبو، ہر پتّی، اللہ کی خاص کاریگری ہے۔


نباء نےایک گلاب کو چھو کر سونگھا، اور اس کی آنکھیں

 چمکنے لگیں۔


امی کیا جنت میں بھی ایسے پھول ہوں گے ؟ 


امی نے آسمان کی طرف دیکھا اور نرمی سے کہا:
ہاں بیٹا، جنت میں ایسے پھول ہوں گے جو ہم نے کبھی دیکھے بھی نہیں!
ایسے رنگ، ایسی خوشبو، جو دنیا میں کہیں نہیں۔
قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ جنت میں وہ چیزیں ہوں گی،
جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا، اور دل نے کبھی سوچا بھی نہیں۔


نباء نے حیرت سے کہا:

واہ! کیا میں بھی وہاں جا سکتی ہوں؟


امی نے نباء کا ہاتھ پکڑا اور کہا
اگر ہم اچھے بنیں، سچ بولیں، اللہ کی عبادت کریں، اور اللہ کو یاد رکھیں ، 
تو ہاں، ان شاء اللہ ہم سب جنت جائیں گے۔


نباء نے مسکرا کر کہا
میں روز سبحان اللہ کہوں گی جب پھول دیکھوں گی،
تاکہ اللہ خوش ہو جائے۔


اس دن کے بعد، نباء جہاں بھی پھول دیکھتی،
وہ رک کر کہتی

سبحان اللہ! اللہ کتنا پیارا ہے


اور دل میں دُعا کرتی۔۔۔ 


یا اللہ! مجھے جنت کے پھولوں کے درمیان کھیلنا ہے


My Best Teacher: My Baba

 

My Baba, My Best Teacher

By Nabaa Faisal Ghauri, age 7

My name is Nabaa. I am 7 years old.
I like coloring, stories, and hugs.
But the best thing in the world is...
my Baba.

He is my best teacher.
Not just for school, 
But for life.

Baba teaches me how to be a good Muslimah. 

When I eat, he says:
“Say Bismillah!”
When I finish, he smiles and says:
“Say Alhamdulillah!”

When the Adhan plays, Baba stops his work.
He goes to the masjid to pray.
I stay home and pray with Amma.
Baba says,
“We always answer Allah first.”

One day, I found a shiny coin on the ground.
I picked it up and showed Baba.
He asked,
“Is it yours?”
I said,
“No, but no one was there.”
Baba gently said,
“We don’t keep what’s not ours. Allah is always watching.”
So we left it back where we found it.

Baba says:
“Islam is not just about praying,  it’s also about being kind, honest, and good to others.”

At bedtime, Baba tells me stories of the Prophet Muhammad (peace be upon him).
He teaches me how the Prophet was gentle and full of good manners.

Before I sleep, I whisper:
“Thank You, Allah, for my Baba.”

He teaches me with love.
He teaches me with smiles.
He teaches me with his actions.

That’s why I say:
My Baba is my best teacher. And I love him very much.

Sunday, May 11, 2025

انسانی تخلیق

 انسانی تخلیق اللہ کی عظیم نشانیاں اور قدرت کے شاہکاروں میں سے ایک ہے۔ قرآن مجید میں بارہا انسان کی تخلیق کو اللہ کی قدرت، حکمت اور تخلیقی کمالات کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا، اسے بہترین ساخت عطا کی، عقل و شعور دیا، اور اپنی مخلوقات میں اسے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا۔


انسان کا اپنی ذات کو پہچاننا، اپنی حدود و امکانات کو سمجھنا، اور اپنے وجود میں غور و فکر کرنا بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل و دماغ میں ایسا نظام رکھا ہے جو اسے کائنات کے رازوں کو سمجھنے اور اپنے مقصد حیات کو جاننے کی تحریک دیتا ہے۔ یہ غور و فکر اور کھوج انسان کو اپنی حقیقت کی طرف لے جاتی ہے اور بالآخر اسے خالق حقیقی کی معرفت تک پہنچاتی ہے۔


انسان کا اپنے آپ کو پہچاننا، اپنی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنا، اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا دراصل اللہ کی حکمت کا اظہار ہے۔ یہ انسان کو یہ باور کراتا ہے کہ اس کی تخلیق بے مقصد نہیں بلکہ ایک عظیم مقصد کے تحت ہے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا:  

*"اور ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں اور ان کے نفسوں میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے"۔* (سورہ فصلت: 53)  


یہ آیت انسان کے غور و فکر اور اپنی ذات کے مشاہدے کی دعوت دیتی ہے تاکہ وہ اپنے رب کی پہچان حاصل کرے۔ انسان جتنا زیادہ اپنی ذات میں جھانکتا ہے، اتنا ہی زیادہ اللہ کی قدرت اور اس کے کمالات کو سمجھنے کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ 


لہذا، اپنی ذات پر غور و فکر کریں، اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں کا شکر ادا کریں، اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں کیونکہ یہی انسان کے تخلیق ہونے کا اصل مقصد ہے۔

احساس

 


نادیہ فیصل 


موجودہ دور ایک دوڑ کا نام ہے ۔ ہر کسی نے اس دوڑ میں شامل ہونے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ۔ آج ہمارے بچوں کی بڑی تعداد دنیا کی چکا چوند کا شکار ہے ۔ کم وقت میں زیادہ پیسہ حاصل کرنا سب کے سب کا خواب بنتا جا رہا ہے ۔ راتوں رات شہرت حاصل کرنے کا خواب سب کے اندر ایک ہیجان کی کیفیت پیدا کر رہا ہے۔ یوٹیوب ٹیک ٹوک یا دیگر سوشل میڈیا کسی مقناطیس کی مانند بچوں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں ۔ اس میں قصور کس کا ہے ان بچوں کا ؟ نہیں یہ ہمارا قصور ہے۔ بطور والدین اور اساتذہ ہم اپنے بچوں کو ان کے مقاصد زندگی مادی چیزوں کو بنانے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔ 


مذہب اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بجائے آج کا بچہ بل گیٹس اور ایلون مسک کا چرچا کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ کیونکہ ہم نے اسے اپنے مذہبی اقدار سے پہچان نہیں کروائی ۔ خواہشات کو پروان چڑھایا۔  خوب سے خوب تر کی تلاش ، زندگی میں رشتوں سے بڑھ کر پیسہ اور آرام دہ طرز حیات، یہی سب ہم کر رہے ہیں اور بچے ہم سے یہی سیکھ رہے ہیں۔  میں یہ نہیں کہہ رہی کہ پیسہ نہ کمائیں۔ 


لازماًاپنی زندگی کو گزارنے کے لیے انسان نے معاش کا حصول کرنا ہے ، مگر کتنا کرنا ہے اس کی حکمت موجود نہیں۔  ایک لاحاصل خواہشات اور امیدوں کاپہیہ ہے جو بس گھومے جا رہا ہے ۔ برکت سے زیادہ کثرت مطلوب ہے ۔ اگر بات کی جائے موجودہ معاشرے کے معاشی اسلوب کی تو اس میں بھی ہم سب مارکیٹ کے غلام بنتے جا رہے ہیں ، بلکہ کہنا چاہیے کہ بن چکے ہیں۔  ایک ان دیکھا  جال ہے جس میں ہم سب بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔  اگر ہم دین اسلام کا مطالعہ کریں تو زندگی گزارنے کے اصول ہمیں دکھائی دیں گے ۔جو ناصرف کامیاب تاجر بناتے ہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی کے باعث بھی بنتے ہیں۔ کوشش ہونی چاہیے کہ بچوں کو اس مارکیٹ کا غلام بنانے کے بجائے ہنر سکھائے جائیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں اپنی ضرورت کے حساب سے کما سکیں ۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت سے اصولِ تجارت سکھائیں جائیں۔ آج ان کے سنہرے اصول ہم نے تو بھلا دیے ہیں مگر مغربی تہذیب نے اپناۓ ہوۓ ہیں اور پھر کئی کامیاب کاروبار چلا رہے ہیں جس کے خواب اس دور کے نوجوان دیکھ رہے ہیں۔ 


ضرورت اس امر کی ہے اس بھاگتے دوڑتی زندگی میں تھوڑی دیر کو تھم جائیں۔ کچھ اپنے ساتھ وقت گزاریں اور سوچیں کہ ہمُ کون ہیں ؟ ہمیں کیوں تخلیق کیا گیا ہے ؟ ہم کیا ، کیوں اور کس لیے کر رہے ہیں؟ ان سب کے مقاصد کیا ہیں ؟ کیا اس سے میری آخرت کی جواب دہی آسان ہوگی یا مشکل؟ برکت اور کثرت کے فرق سمجھیں۔ زندگی کو سمیٹیں۔ اپنے لیے اور اپنوں کے لیے وقت نکالیں۔ دین کو سمجھیں اور اپنے معیار زندگی کو بامقصد بنائیں۔ 


وقت برف کی مانند پگھل رہا ہے۔مگر ابھی سانسیں چل رہی ہیں۔ ہم ابھی بھی وقت نکال سکتے ہیں سوچنے اور تدبر کرنے کے لیے ۔ ہمارے بچے اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے ہم کوشش کر سکتے ہیں ۔ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ تباہی اور گمراہی کی اس دوڑ سے ابھی بھی بچ سکتے ہیں ۔ دین کے حسنات کو سمیٹ سکتے ہیں۔  اللہ کا شکر ہے کہ ہم اللہ کے بندے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ قرآنی احکامات ، طرز حیات سب کچھ موجود ہے۔اتنا جامع اور مثالی نمونہ موجود ہے ، صحابہ کرام ، تبع تابعین اور ہمارے اسلاف ، ہمارے لیے کامیاب زندگی گزارنے کی میراث چھوڑ گۓ ہیں۔ جن پر عمل کر کے ہم تاریخ اسلام کے عظیم و کامیاب لیڈران کی صورت خود کو اور اپنی نسلوں کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہی کہ مجھے اور آپ کو جواب دہی کے لیے تیار ہونے کی توفیق عطا فرماۓ آمین 


نادیہ فیصل- 

دنیا

 


یہ دنیا محض ایک سراۓ ہے، ایک عارضی پڑاؤ ۔ جیسے سفر میں کوئی مسافر کچھ دیر کے لیے کسی اسٹیشن پر رکتا ہے۔ ہر ایک کی سواری یہاں آتی ہے، رکتی ہے، اور پھر اپنے وقت پر روانہ ہو جاتی ہے۔ اس عارضی قیام گاہ میں دل لگا لینا، یہاں کی چمک دمک میں کھو جانا، ایک دھوکہ ہے۔ کیونکہ یہ دنیا فانی ہے، اور جو کچھ یہاں ہے، وہ سب مٹ جانے والا ہے۔


اصل زندگی تو وہ ہے جو موت کے بعد شروع ہوگی ۔ وہ ابدی، لازوال زندگی جہاں نہ وقت ختم ہوگا، نہ سانسیں تھکیں گی، نہ امیدیں ٹوٹیں گی۔ ایک مؤمن کی نگاہ ہمیشہ اس ابدی زندگی پر رہتی ہے، کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے:
"وَإِنَّ ٱلدَّارَ ٱلْءَاخِرَةَ لَهِىَ ٱلْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ"
(سورہ العنکبوت: 64)


’’اور آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے، کاش وہ جانتے۔‘‘

پس، عقل مند وہی ہے جو اس مختصر دنیا کو آخرت کے لیے زادِ راہ بنانے میں لگا دے ۔ 


اپنے اعمال، اپنی نیتیں، اور اپنے فیصلے اُس جاوداں زندگی کی روشنی میں کرے۔

دنیا کی محبت دل سے نکال کر، اسے ایک میدانِ عمل سمجھے ، 
جہاں ہر نیکی، ہر صبر، ہر قربانی، وہاں کی کامیابی کا سرمایہ بن جائے۔

Natural Life

 Living a natural life : simple, mindful, and in harmony with the fit rah (innate nature), purifies the heart from distractions, fosters Shukr (gratitude) and tafakkur (deep reflection), and allows a person to feel more connected with their purpose. As a result, iman (faith) becomes stronger, more grounded, and spiritually nourishing.

Nature

 Nature is the best healer because it is a manifestation of Allah’s creation,Pure, balanced, and full of signs. When a person lives close to nature, they begin to observe the Ayat (signs) of Allah in the rising of the sun, the flowing water, the plants, and the skies. This daily exposure to the natural world humbles the heart, reminds one of Allah’s power and mercy, and strengthens tawakkal (reliance on Allah).