Sunday, May 11, 2025

زندگی کے ہجوم میں اپنے رب سے ملاقات

 

(نایاب فیصل کی خود کلامی)

 
‏‎زندگی محض ایک لمحاتی سفر نہیں، بلکہ یہ ایک مسلسل دوڑ ہے۔ ایسے سفر کی مانند جس میں ہر قدم کے ساتھ کوئی نیا تقاضا، کوئی نئی آزمائش، اور کوئی نئی ذمہ داری منتظر ہوتی ہے۔ میں ایک عورت ہوں ۔ کبھی ماں کی روپ میں، کبھی بیوی کی صورت، کبھی ایک بیٹی کی پرچھائیں میں، اور کبھی ایک خود کفیل محنت کش کی شکل میں۔ میری صبحیں وقت کی انگلی تھامے دوڑتی ہیں، اور راتیں خاموش تھکن کی چادر اوڑھ کر سو جاتی ہیں۔
‏‎ان مصروف لمحوں میں، اس بےتاب ہجوم میں، کبھی کبھی دل کے کسی دور کونے سے ایک سوال ابھرتا ہے
"کیا میں، اتنی مصروف، اتنی بٹی ہوئی، اس دنیا کے شور میں، کبھی اپنے رب سے ملاقات کر سکتی ہوں؟"

‏‎ایسا سوال بظاہر عام سا لگتا ہے، مگر اس کے اندر ایک گہری پیاس چھپی ہوتی ہے۔ روح کی وہ پیاس جو عبادتوں میں بھی اکثر تشنہ رہتی ہے۔ پھر کہیں دل کے اندر سے ایک صدا آتی ہے۔ دھیمی، مگر گونج دار ۔۔۔‎"

ہاں، تُو ضرور مل سکتی ہے۔ اگر تُو چاہے، اگر تُو تلاش کرے۔ میں تیرے سجدوں کی نمی میں ہوں، تیرے آنسوؤں کے خاموش بہاؤ میں، تیرے تھکے قدموں کی چاپ میں، اور تیرے دل کی اس بےنام سی اداسی میں۔"
‏‎اُسی لمحے، بھیڑ کے بیچ کھڑی میں نے محسوس کیا کہ رب مجھ سے مخاطب ہے۔ میری خاموشی میں بولتا ہوا، میری بےچینی کو تھامتا ہوا:‎"

اے میری بندی، کیا تُو سمجھتی ہے کہ میں صرف نماز کے وقت تیرا رب ہوں؟ میں تو تیری ہر سانس کے ساتھ ہوں۔ جب تُو رش میں گھبراتی ہے، جب تیرے ہاتھ بوجھ سے تھک جاتے ہیں، جب تُو کسی مجبور چہرے کو دیکھ کر کچھ لمحے رک جاتی ہے، میں وہیں ہوتا ہوں۔ تُو جس لمحے بھی میری طرف متوجہ ہوتی ہے، میں تجھے وہیں پا لیتا ہوں۔"

‏‎یہ خیال نہیں تھا، یہ مکالمہ تھا۔ میرے دل اور میرے رب کے درمیان۔ ایک ایسی خود کلامی جو ہر عورت کے دل میں کسی نہ کسی لمحے ضرور ابھرتی ہے، خاص طور پر اس لمحے جب وہ دنیا کی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی ہوتی ہے، لیکن اس کے اندر کا نور بجھنے نہیں دیتا۔

‏‎میں نے جانا کہ اللہ صرف محراب و منبر میں نہیں، وہ تو ہر اُس جگہ موجود ہے جہاں دل اُسے صدق دل سے یاد کرے۔ وہ باورچی خانے میں ہے، وہ بچوں کے لیے لنچ باکس تیار کرنے میں ہے، وہ دفتر کی کرسی پر بھی ہے، اور وہ بازار کے ہجوم میں بھی۔

‏‎رب کی تلاش دراصل خود کی تلاش ہے۔ جب عورت خود کو پہچان لیتی ہے، اپنی ذات میں جھانکتی ہے، تو اُسے رب کی وہ قربت نصیب ہوتی ہے جو نہ کسی کتاب میں لکھی جاتی ہے، نہ کسی مجلس میں سنی جاتی ہے۔ وہ تو دل کے اندر جگمگاتی ہے۔

‏‎تو اے میری ہم جنس، اگر تُو بھی کبھی تھک جائے، رک جائے، اور یہ سوچے کہ تُو رب سے دور ہو گئی ہے۔ تو جان لے، وہ رب تجھ سے کبھی دور نہیں ہوتا۔ وہ تو بس تیرا ایک پل، ایک لمحہ، ایک پکار کا منتظر ہوتا ہے۔

No comments:

Post a Comment