Sunday, May 11, 2025

احساس

 


نادیہ فیصل 


موجودہ دور ایک دوڑ کا نام ہے ۔ ہر کسی نے اس دوڑ میں شامل ہونے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ۔ آج ہمارے بچوں کی بڑی تعداد دنیا کی چکا چوند کا شکار ہے ۔ کم وقت میں زیادہ پیسہ حاصل کرنا سب کے سب کا خواب بنتا جا رہا ہے ۔ راتوں رات شہرت حاصل کرنے کا خواب سب کے اندر ایک ہیجان کی کیفیت پیدا کر رہا ہے۔ یوٹیوب ٹیک ٹوک یا دیگر سوشل میڈیا کسی مقناطیس کی مانند بچوں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں ۔ اس میں قصور کس کا ہے ان بچوں کا ؟ نہیں یہ ہمارا قصور ہے۔ بطور والدین اور اساتذہ ہم اپنے بچوں کو ان کے مقاصد زندگی مادی چیزوں کو بنانے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔ 


مذہب اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بجائے آج کا بچہ بل گیٹس اور ایلون مسک کا چرچا کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ کیونکہ ہم نے اسے اپنے مذہبی اقدار سے پہچان نہیں کروائی ۔ خواہشات کو پروان چڑھایا۔  خوب سے خوب تر کی تلاش ، زندگی میں رشتوں سے بڑھ کر پیسہ اور آرام دہ طرز حیات، یہی سب ہم کر رہے ہیں اور بچے ہم سے یہی سیکھ رہے ہیں۔  میں یہ نہیں کہہ رہی کہ پیسہ نہ کمائیں۔ 


لازماًاپنی زندگی کو گزارنے کے لیے انسان نے معاش کا حصول کرنا ہے ، مگر کتنا کرنا ہے اس کی حکمت موجود نہیں۔  ایک لاحاصل خواہشات اور امیدوں کاپہیہ ہے جو بس گھومے جا رہا ہے ۔ برکت سے زیادہ کثرت مطلوب ہے ۔ اگر بات کی جائے موجودہ معاشرے کے معاشی اسلوب کی تو اس میں بھی ہم سب مارکیٹ کے غلام بنتے جا رہے ہیں ، بلکہ کہنا چاہیے کہ بن چکے ہیں۔  ایک ان دیکھا  جال ہے جس میں ہم سب بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔  اگر ہم دین اسلام کا مطالعہ کریں تو زندگی گزارنے کے اصول ہمیں دکھائی دیں گے ۔جو ناصرف کامیاب تاجر بناتے ہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی کے باعث بھی بنتے ہیں۔ کوشش ہونی چاہیے کہ بچوں کو اس مارکیٹ کا غلام بنانے کے بجائے ہنر سکھائے جائیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں اپنی ضرورت کے حساب سے کما سکیں ۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت سے اصولِ تجارت سکھائیں جائیں۔ آج ان کے سنہرے اصول ہم نے تو بھلا دیے ہیں مگر مغربی تہذیب نے اپناۓ ہوۓ ہیں اور پھر کئی کامیاب کاروبار چلا رہے ہیں جس کے خواب اس دور کے نوجوان دیکھ رہے ہیں۔ 


ضرورت اس امر کی ہے اس بھاگتے دوڑتی زندگی میں تھوڑی دیر کو تھم جائیں۔ کچھ اپنے ساتھ وقت گزاریں اور سوچیں کہ ہمُ کون ہیں ؟ ہمیں کیوں تخلیق کیا گیا ہے ؟ ہم کیا ، کیوں اور کس لیے کر رہے ہیں؟ ان سب کے مقاصد کیا ہیں ؟ کیا اس سے میری آخرت کی جواب دہی آسان ہوگی یا مشکل؟ برکت اور کثرت کے فرق سمجھیں۔ زندگی کو سمیٹیں۔ اپنے لیے اور اپنوں کے لیے وقت نکالیں۔ دین کو سمجھیں اور اپنے معیار زندگی کو بامقصد بنائیں۔ 


وقت برف کی مانند پگھل رہا ہے۔مگر ابھی سانسیں چل رہی ہیں۔ ہم ابھی بھی وقت نکال سکتے ہیں سوچنے اور تدبر کرنے کے لیے ۔ ہمارے بچے اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے ہم کوشش کر سکتے ہیں ۔ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ تباہی اور گمراہی کی اس دوڑ سے ابھی بھی بچ سکتے ہیں ۔ دین کے حسنات کو سمیٹ سکتے ہیں۔  اللہ کا شکر ہے کہ ہم اللہ کے بندے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ قرآنی احکامات ، طرز حیات سب کچھ موجود ہے۔اتنا جامع اور مثالی نمونہ موجود ہے ، صحابہ کرام ، تبع تابعین اور ہمارے اسلاف ، ہمارے لیے کامیاب زندگی گزارنے کی میراث چھوڑ گۓ ہیں۔ جن پر عمل کر کے ہم تاریخ اسلام کے عظیم و کامیاب لیڈران کی صورت خود کو اور اپنی نسلوں کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہی کہ مجھے اور آپ کو جواب دہی کے لیے تیار ہونے کی توفیق عطا فرماۓ آمین 


نادیہ فیصل- 

No comments:

Post a Comment