Tuesday, May 20, 2025

رنگ برنگے پھول


رنگ برنگے پھول 

نباء کی خاص کہانی


ایک خوبصورت صبح نباء اپنی امی کے ساتھ باغ میں چہل قدمی کے لیے نکلی۔


ہوا نرم تھی، پرندے چہچہا رہے تھے، اور ہر طرف پھولوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔


نباء نے آنکھیں کھول کر اِدھر اُدھر دیکھا۔
امی! دیکھیں نا! یہ لال گلاب، پیلے سورج مکھی، نیلے پھول، اور سفید موتیا کتنے پیارے لگ رہے ہیں۔


امی نے مسکرا کر کہا
ہاں بیٹا، یہ سب پھول اللہ نے بنائے ہیں۔
ہر رنگ، ہر خوشبو، ہر پتّی، اللہ کی خاص کاریگری ہے۔


نباء نےایک گلاب کو چھو کر سونگھا، اور اس کی آنکھیں

 چمکنے لگیں۔


امی کیا جنت میں بھی ایسے پھول ہوں گے ؟ 


امی نے آسمان کی طرف دیکھا اور نرمی سے کہا:
ہاں بیٹا، جنت میں ایسے پھول ہوں گے جو ہم نے کبھی دیکھے بھی نہیں!
ایسے رنگ، ایسی خوشبو، جو دنیا میں کہیں نہیں۔
قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ جنت میں وہ چیزیں ہوں گی،
جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا، اور دل نے کبھی سوچا بھی نہیں۔


نباء نے حیرت سے کہا:

واہ! کیا میں بھی وہاں جا سکتی ہوں؟


امی نے نباء کا ہاتھ پکڑا اور کہا
اگر ہم اچھے بنیں، سچ بولیں، اللہ کی عبادت کریں، اور اللہ کو یاد رکھیں ، 
تو ہاں، ان شاء اللہ ہم سب جنت جائیں گے۔


نباء نے مسکرا کر کہا
میں روز سبحان اللہ کہوں گی جب پھول دیکھوں گی،
تاکہ اللہ خوش ہو جائے۔


اس دن کے بعد، نباء جہاں بھی پھول دیکھتی،
وہ رک کر کہتی

سبحان اللہ! اللہ کتنا پیارا ہے


اور دل میں دُعا کرتی۔۔۔ 


یا اللہ! مجھے جنت کے پھولوں کے درمیان کھیلنا ہے


My Best Teacher: My Baba

 

My Baba, My Best Teacher

By Nabaa Faisal Ghauri, age 7

My name is Nabaa. I am 7 years old.
I like coloring, stories, and hugs.
But the best thing in the world is...
my Baba.

He is my best teacher.
Not just for school, 
But for life.

Baba teaches me how to be a good Muslimah. 

When I eat, he says:
“Say Bismillah!”
When I finish, he smiles and says:
“Say Alhamdulillah!”

When the Adhan plays, Baba stops his work.
He goes to the masjid to pray.
I stay home and pray with Amma.
Baba says,
“We always answer Allah first.”

One day, I found a shiny coin on the ground.
I picked it up and showed Baba.
He asked,
“Is it yours?”
I said,
“No, but no one was there.”
Baba gently said,
“We don’t keep what’s not ours. Allah is always watching.”
So we left it back where we found it.

Baba says:
“Islam is not just about praying,  it’s also about being kind, honest, and good to others.”

At bedtime, Baba tells me stories of the Prophet Muhammad (peace be upon him).
He teaches me how the Prophet was gentle and full of good manners.

Before I sleep, I whisper:
“Thank You, Allah, for my Baba.”

He teaches me with love.
He teaches me with smiles.
He teaches me with his actions.

That’s why I say:
My Baba is my best teacher. And I love him very much.

Sunday, May 11, 2025

انسانی تخلیق

 انسانی تخلیق اللہ کی عظیم نشانیاں اور قدرت کے شاہکاروں میں سے ایک ہے۔ قرآن مجید میں بارہا انسان کی تخلیق کو اللہ کی قدرت، حکمت اور تخلیقی کمالات کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا، اسے بہترین ساخت عطا کی، عقل و شعور دیا، اور اپنی مخلوقات میں اسے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا۔


انسان کا اپنی ذات کو پہچاننا، اپنی حدود و امکانات کو سمجھنا، اور اپنے وجود میں غور و فکر کرنا بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل و دماغ میں ایسا نظام رکھا ہے جو اسے کائنات کے رازوں کو سمجھنے اور اپنے مقصد حیات کو جاننے کی تحریک دیتا ہے۔ یہ غور و فکر اور کھوج انسان کو اپنی حقیقت کی طرف لے جاتی ہے اور بالآخر اسے خالق حقیقی کی معرفت تک پہنچاتی ہے۔


انسان کا اپنے آپ کو پہچاننا، اپنی خوبیوں اور خامیوں کو سمجھنا، اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا دراصل اللہ کی حکمت کا اظہار ہے۔ یہ انسان کو یہ باور کراتا ہے کہ اس کی تخلیق بے مقصد نہیں بلکہ ایک عظیم مقصد کے تحت ہے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا:  

*"اور ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں اور ان کے نفسوں میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے"۔* (سورہ فصلت: 53)  


یہ آیت انسان کے غور و فکر اور اپنی ذات کے مشاہدے کی دعوت دیتی ہے تاکہ وہ اپنے رب کی پہچان حاصل کرے۔ انسان جتنا زیادہ اپنی ذات میں جھانکتا ہے، اتنا ہی زیادہ اللہ کی قدرت اور اس کے کمالات کو سمجھنے کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ 


لہذا، اپنی ذات پر غور و فکر کریں، اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں کا شکر ادا کریں، اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں کیونکہ یہی انسان کے تخلیق ہونے کا اصل مقصد ہے۔

احساس

 


نادیہ فیصل 


موجودہ دور ایک دوڑ کا نام ہے ۔ ہر کسی نے اس دوڑ میں شامل ہونے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ۔ آج ہمارے بچوں کی بڑی تعداد دنیا کی چکا چوند کا شکار ہے ۔ کم وقت میں زیادہ پیسہ حاصل کرنا سب کے سب کا خواب بنتا جا رہا ہے ۔ راتوں رات شہرت حاصل کرنے کا خواب سب کے اندر ایک ہیجان کی کیفیت پیدا کر رہا ہے۔ یوٹیوب ٹیک ٹوک یا دیگر سوشل میڈیا کسی مقناطیس کی مانند بچوں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں ۔ اس میں قصور کس کا ہے ان بچوں کا ؟ نہیں یہ ہمارا قصور ہے۔ بطور والدین اور اساتذہ ہم اپنے بچوں کو ان کے مقاصد زندگی مادی چیزوں کو بنانے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔ 


مذہب اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بجائے آج کا بچہ بل گیٹس اور ایلون مسک کا چرچا کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ کیونکہ ہم نے اسے اپنے مذہبی اقدار سے پہچان نہیں کروائی ۔ خواہشات کو پروان چڑھایا۔  خوب سے خوب تر کی تلاش ، زندگی میں رشتوں سے بڑھ کر پیسہ اور آرام دہ طرز حیات، یہی سب ہم کر رہے ہیں اور بچے ہم سے یہی سیکھ رہے ہیں۔  میں یہ نہیں کہہ رہی کہ پیسہ نہ کمائیں۔ 


لازماًاپنی زندگی کو گزارنے کے لیے انسان نے معاش کا حصول کرنا ہے ، مگر کتنا کرنا ہے اس کی حکمت موجود نہیں۔  ایک لاحاصل خواہشات اور امیدوں کاپہیہ ہے جو بس گھومے جا رہا ہے ۔ برکت سے زیادہ کثرت مطلوب ہے ۔ اگر بات کی جائے موجودہ معاشرے کے معاشی اسلوب کی تو اس میں بھی ہم سب مارکیٹ کے غلام بنتے جا رہے ہیں ، بلکہ کہنا چاہیے کہ بن چکے ہیں۔  ایک ان دیکھا  جال ہے جس میں ہم سب بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔  اگر ہم دین اسلام کا مطالعہ کریں تو زندگی گزارنے کے اصول ہمیں دکھائی دیں گے ۔جو ناصرف کامیاب تاجر بناتے ہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی کے باعث بھی بنتے ہیں۔ کوشش ہونی چاہیے کہ بچوں کو اس مارکیٹ کا غلام بنانے کے بجائے ہنر سکھائے جائیں تاکہ وہ اپنی زندگی میں اپنی ضرورت کے حساب سے کما سکیں ۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت سے اصولِ تجارت سکھائیں جائیں۔ آج ان کے سنہرے اصول ہم نے تو بھلا دیے ہیں مگر مغربی تہذیب نے اپناۓ ہوۓ ہیں اور پھر کئی کامیاب کاروبار چلا رہے ہیں جس کے خواب اس دور کے نوجوان دیکھ رہے ہیں۔ 


ضرورت اس امر کی ہے اس بھاگتے دوڑتی زندگی میں تھوڑی دیر کو تھم جائیں۔ کچھ اپنے ساتھ وقت گزاریں اور سوچیں کہ ہمُ کون ہیں ؟ ہمیں کیوں تخلیق کیا گیا ہے ؟ ہم کیا ، کیوں اور کس لیے کر رہے ہیں؟ ان سب کے مقاصد کیا ہیں ؟ کیا اس سے میری آخرت کی جواب دہی آسان ہوگی یا مشکل؟ برکت اور کثرت کے فرق سمجھیں۔ زندگی کو سمیٹیں۔ اپنے لیے اور اپنوں کے لیے وقت نکالیں۔ دین کو سمجھیں اور اپنے معیار زندگی کو بامقصد بنائیں۔ 


وقت برف کی مانند پگھل رہا ہے۔مگر ابھی سانسیں چل رہی ہیں۔ ہم ابھی بھی وقت نکال سکتے ہیں سوچنے اور تدبر کرنے کے لیے ۔ ہمارے بچے اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے ہم کوشش کر سکتے ہیں ۔ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ تباہی اور گمراہی کی اس دوڑ سے ابھی بھی بچ سکتے ہیں ۔ دین کے حسنات کو سمیٹ سکتے ہیں۔  اللہ کا شکر ہے کہ ہم اللہ کے بندے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ قرآنی احکامات ، طرز حیات سب کچھ موجود ہے۔اتنا جامع اور مثالی نمونہ موجود ہے ، صحابہ کرام ، تبع تابعین اور ہمارے اسلاف ، ہمارے لیے کامیاب زندگی گزارنے کی میراث چھوڑ گۓ ہیں۔ جن پر عمل کر کے ہم تاریخ اسلام کے عظیم و کامیاب لیڈران کی صورت خود کو اور اپنی نسلوں کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہی کہ مجھے اور آپ کو جواب دہی کے لیے تیار ہونے کی توفیق عطا فرماۓ آمین 


نادیہ فیصل- 

دنیا

 


یہ دنیا محض ایک سراۓ ہے، ایک عارضی پڑاؤ ۔ جیسے سفر میں کوئی مسافر کچھ دیر کے لیے کسی اسٹیشن پر رکتا ہے۔ ہر ایک کی سواری یہاں آتی ہے، رکتی ہے، اور پھر اپنے وقت پر روانہ ہو جاتی ہے۔ اس عارضی قیام گاہ میں دل لگا لینا، یہاں کی چمک دمک میں کھو جانا، ایک دھوکہ ہے۔ کیونکہ یہ دنیا فانی ہے، اور جو کچھ یہاں ہے، وہ سب مٹ جانے والا ہے۔


اصل زندگی تو وہ ہے جو موت کے بعد شروع ہوگی ۔ وہ ابدی، لازوال زندگی جہاں نہ وقت ختم ہوگا، نہ سانسیں تھکیں گی، نہ امیدیں ٹوٹیں گی۔ ایک مؤمن کی نگاہ ہمیشہ اس ابدی زندگی پر رہتی ہے، کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے:
"وَإِنَّ ٱلدَّارَ ٱلْءَاخِرَةَ لَهِىَ ٱلْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ"
(سورہ العنکبوت: 64)


’’اور آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے، کاش وہ جانتے۔‘‘

پس، عقل مند وہی ہے جو اس مختصر دنیا کو آخرت کے لیے زادِ راہ بنانے میں لگا دے ۔ 


اپنے اعمال، اپنی نیتیں، اور اپنے فیصلے اُس جاوداں زندگی کی روشنی میں کرے۔

دنیا کی محبت دل سے نکال کر، اسے ایک میدانِ عمل سمجھے ، 
جہاں ہر نیکی، ہر صبر، ہر قربانی، وہاں کی کامیابی کا سرمایہ بن جائے۔

Natural Life

 Living a natural life : simple, mindful, and in harmony with the fit rah (innate nature), purifies the heart from distractions, fosters Shukr (gratitude) and tafakkur (deep reflection), and allows a person to feel more connected with their purpose. As a result, iman (faith) becomes stronger, more grounded, and spiritually nourishing.

Nature

 Nature is the best healer because it is a manifestation of Allah’s creation,Pure, balanced, and full of signs. When a person lives close to nature, they begin to observe the Ayat (signs) of Allah in the rising of the sun, the flowing water, the plants, and the skies. This daily exposure to the natural world humbles the heart, reminds one of Allah’s power and mercy, and strengthens tawakkal (reliance on Allah).

کہے فقیر

 کہے فقیر 


کہے فقیر – ایک مختصر جائزہ
مصنف: سید سرفراز شاہ

کیوں پڑھیں؟


"کہے فقیر" ایک روحانی کتاب ہے جو انسان کو خود شناسی، اللہ سے تعلق، اور باطنی سکون کی طرف رہنمائی دیتی ہے۔ اگر آپ زندگی کے مسائل کا گہرا مطلب سمجھنا چاہتے ہیں، یا روحانی 

طور پر خود کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو یہ کتاب آپ کے لیے ہے۔


کون پڑھے؟

  • وہ لوگ جو زندگی کے مقصد پر غور کرنا چاہتے ہیں
  • جو روحانیت، تصوف، اور دل کی گہرائیوں سے جڑنا چاہتے ہیں
  • جو سوالات، الجھنوں، اور فکر کی شدت سے دوچار ہیں
  • اور وہ لوگ جو سادہ مگر مؤثر انداز میں بات کو سمجھنا چاہتے ہیں

یہ کتاب نہ صرف سوچنے پر مجبور کرتی ہے، بلکہ زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا ہنر بھی سکھاتی ہے۔


"اللہ کے کاموں میں جلدی نہیں، اور انسان کی سب سے بڑی آزمائش یہی ہے کہ وہ دیر کو تاخیر سمجھتا ہے، حالانکہ دیر بھی ایک وقت پر آتی ہے۔"

یہ اقتباس صبر، بھروسے، اور اللہ کی حکمت پر ایمان رکھنے کا خوبصورت پیغام دیتا ہے۔

"کہے فقیر" مجموعی طور پر ایک فکری اور روحانی کتاب ہے، لیکن اگر تنقیدی نظر سے دیکھیں تو چند پہلو ایسے ہیں جن پر بات کی جا سکتی ہے:


1. غیر روایتی صوفیانہ طرز:

کتاب میں روایتی مذہبی انداز کی بجائے صوفیانہ فکر کو فوقیت دی گئی ہے۔ بعض قارئین کے لیے یہ انداز زیادہ جذباتی یا غیر رسمی محسوس ہو سکتا ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو علمی یا تحقیقی انداز کو ترجیح دیتے ہیں۔


2. حوالہ جات کی کمی:

مصنف کے مشاہدات اور باتیں دل کو لگتی ہیں، مگر کچھ قارئین کو یہ بات کھل سکتی ہے کہ بہت سی باتیں ذاتی تجربے پر مبنی ہیں اور ان کے ساتھ واضح دینی یا علمی حوالہ موجود نہیں ہوتا۔



3. سوالات کے جوابات عمومی ہیں:

کچھ جگہوں پر قاری کو لگتا ہے کہ سوالات کا جواب بہت عمومی یا رمز بھرا ہے، جسے ہر قاری آسانی سے نہیں سمجھ سکتا، خاص طور پر اگر وہ اس طرزِ فکر سے پہلے واقف نہ ہو۔


4. عملی رہنمائی کم:

اگرچہ کتاب انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے، لیکن جو لوگ "عملی قدم" یا واضح رہنمائی چاہتے ہیں، انہیں یہ کتاب زیادہ "تأملی" (reflective) اور کم "عملی" (actionable) محسوس ہو سکتی ہے۔

اپنے آپ سے ملاقات

 

کبھی آپ نے آئینے میں جھانک کر صرف چہرہ نہیں، بلکہ اپنے وجود کی گہرائی کو دیکھا ہے؟ کبھی سنا ہے وہ خاموش سوال جو دل کے اندر کہیں دبی ہوئی ذات پوچھتی ہے؟ آج میں اسی ملاقات کی بات کررہی ہوں۔ ایک ایسی ملاقات جو کسی اور سے نہیں، خود اپنے آپ سے ہے۔ 


اپنے آپ سے ملاقات ایک مسلم عورت کے لیے نہایت ضروری ہے، کیونکہ اسی میں اس کی اصل پہچان پوشیدہ ہے۔ زندگی کی دوڑ میں، جب عورت ہر طرف کی توقعات اور ذمہ

داریوں میں الجھ جاتی ہے، تو وہ اکثر خود کو بھول جاتی ہے۔ مگر ایک لمحہ جو وہ اپنے اندر جھانکنے کے لیے نکالتی

ہے، وہی اس کی روحانی بیداری کا آغاز ہوتا ہے۔


اسلام نے عورت کو صرف حقوق ہی نہیں دیے، بلکہ اسے شعور، وقار اور مقصدِ حیات بھی عطا کیا۔ خدیجہؓ کی بصیرت، فاطمہؓ کا صبر، اور عائشہؓ کی علمیت ہمیں بتاتی ہے کہ ایک باشعور عورت صرف اپنے لیے نہیں، پورے معاشرے کے لیے چراغِ راہ بن سکتی ہے۔ لیکن یہ چراغ تب ہی روشن ہوتا ہے جب وہ اپنے آپ کو پہچان لے، اپنے دل کی آواز سنے، اور اپنے رب سے جڑنے کی راہ تلاش کرے۔


یہ ملاقات عورت کو بتاتی ہے کہ وہ دوسروں کی توقعات سے زیادہ، اپنی نیت اور ایمان کی پابند ہے۔ وہ خوبصورتی، قابلیت، یا رشتوں کے معیار پر نہیں، بلکہ تقویٰ، علم اور کردار پر پہچانی جاتی ہے۔ ایک باشعور مسلم عورت جب اپنے اندر کی دنیا سے جڑتی ہے، تو وہ بیرونی دنیا میں روشنی پھیلانے کے قابل ہو جاتی ہے۔


لہٰذا، اپنے آپ سے ملاقات صرف ایک فکری عمل نہیں، بلکہ 

ایک ایمانی سفر ہے، جو عورت کو خودی، خودداری اور خدا شناسی عطا کرتا ہے۔ یہی شعور اسے زمانے کے طوفانوں میں ثابت قدم رکھتا ہے اور اسی سے اس کی اصل عظمت جنم لیتی ہے۔


وقت کے ہجوم میں، اگر کوئی ملاقات سب سے زیادہ ضروری ہے تو وہ ہے اپنی ذات سے۔ کیونکہ جب عورت خود کو پہچان لیتی ہے، تو وہ دنیا کی پہچان بدلنے کا ہنر بھی سیکھ لیتی ہے۔ یہ ملاقات محض لمحوں کی نہیں، بلکہ شعور، وقار، اور ایمان کی مکمل تعبیر ہے۔ آئیے، ہم سب اپنے آپ سے وہ پہلی اور سب سے اہم ملاقات کریں۔ 

زندگی کے ہجوم میں اپنے رب سے ملاقات

 

(نایاب فیصل کی خود کلامی)

 
‏‎زندگی محض ایک لمحاتی سفر نہیں، بلکہ یہ ایک مسلسل دوڑ ہے۔ ایسے سفر کی مانند جس میں ہر قدم کے ساتھ کوئی نیا تقاضا، کوئی نئی آزمائش، اور کوئی نئی ذمہ داری منتظر ہوتی ہے۔ میں ایک عورت ہوں ۔ کبھی ماں کی روپ میں، کبھی بیوی کی صورت، کبھی ایک بیٹی کی پرچھائیں میں، اور کبھی ایک خود کفیل محنت کش کی شکل میں۔ میری صبحیں وقت کی انگلی تھامے دوڑتی ہیں، اور راتیں خاموش تھکن کی چادر اوڑھ کر سو جاتی ہیں۔
‏‎ان مصروف لمحوں میں، اس بےتاب ہجوم میں، کبھی کبھی دل کے کسی دور کونے سے ایک سوال ابھرتا ہے
"کیا میں، اتنی مصروف، اتنی بٹی ہوئی، اس دنیا کے شور میں، کبھی اپنے رب سے ملاقات کر سکتی ہوں؟"

‏‎ایسا سوال بظاہر عام سا لگتا ہے، مگر اس کے اندر ایک گہری پیاس چھپی ہوتی ہے۔ روح کی وہ پیاس جو عبادتوں میں بھی اکثر تشنہ رہتی ہے۔ پھر کہیں دل کے اندر سے ایک صدا آتی ہے۔ دھیمی، مگر گونج دار ۔۔۔‎"

ہاں، تُو ضرور مل سکتی ہے۔ اگر تُو چاہے، اگر تُو تلاش کرے۔ میں تیرے سجدوں کی نمی میں ہوں، تیرے آنسوؤں کے خاموش بہاؤ میں، تیرے تھکے قدموں کی چاپ میں، اور تیرے دل کی اس بےنام سی اداسی میں۔"
‏‎اُسی لمحے، بھیڑ کے بیچ کھڑی میں نے محسوس کیا کہ رب مجھ سے مخاطب ہے۔ میری خاموشی میں بولتا ہوا، میری بےچینی کو تھامتا ہوا:‎"

اے میری بندی، کیا تُو سمجھتی ہے کہ میں صرف نماز کے وقت تیرا رب ہوں؟ میں تو تیری ہر سانس کے ساتھ ہوں۔ جب تُو رش میں گھبراتی ہے، جب تیرے ہاتھ بوجھ سے تھک جاتے ہیں، جب تُو کسی مجبور چہرے کو دیکھ کر کچھ لمحے رک جاتی ہے، میں وہیں ہوتا ہوں۔ تُو جس لمحے بھی میری طرف متوجہ ہوتی ہے، میں تجھے وہیں پا لیتا ہوں۔"

‏‎یہ خیال نہیں تھا، یہ مکالمہ تھا۔ میرے دل اور میرے رب کے درمیان۔ ایک ایسی خود کلامی جو ہر عورت کے دل میں کسی نہ کسی لمحے ضرور ابھرتی ہے، خاص طور پر اس لمحے جب وہ دنیا کی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی ہوتی ہے، لیکن اس کے اندر کا نور بجھنے نہیں دیتا۔

‏‎میں نے جانا کہ اللہ صرف محراب و منبر میں نہیں، وہ تو ہر اُس جگہ موجود ہے جہاں دل اُسے صدق دل سے یاد کرے۔ وہ باورچی خانے میں ہے، وہ بچوں کے لیے لنچ باکس تیار کرنے میں ہے، وہ دفتر کی کرسی پر بھی ہے، اور وہ بازار کے ہجوم میں بھی۔

‏‎رب کی تلاش دراصل خود کی تلاش ہے۔ جب عورت خود کو پہچان لیتی ہے، اپنی ذات میں جھانکتی ہے، تو اُسے رب کی وہ قربت نصیب ہوتی ہے جو نہ کسی کتاب میں لکھی جاتی ہے، نہ کسی مجلس میں سنی جاتی ہے۔ وہ تو دل کے اندر جگمگاتی ہے۔

‏‎تو اے میری ہم جنس، اگر تُو بھی کبھی تھک جائے، رک جائے، اور یہ سوچے کہ تُو رب سے دور ہو گئی ہے۔ تو جان لے، وہ رب تجھ سے کبھی دور نہیں ہوتا۔ وہ تو بس تیرا ایک پل، ایک لمحہ، ایک پکار کا منتظر ہوتا ہے۔